Articles

Eid-e-Mubahila


By Sheikh Ghulam Mehdi Hakimi | Date : Sunday 22 Jun 2025 PDF | English | Urdu

سب سے پہلے تمام مومنین و مومنات کو عید سعید مباہلہ کی مناسبت سے تبریک عرض کرتا ہوں آج کا مقالہ مباہلے کے عنوان سے لکھنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے جس میں واقعہ مباہلہ کی نوعیت اور آخر میں اس پر کچھ تبصرہ ہو گا ۔ ان شاء اللہ

مباہلہ کیا ہے

پیغمبر اکرم ﷺ نے مدینہ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے چند سال بعد دیگر ممالک و مذاہب کے سربراہان کے نام خطوط لکھے۔ جن میں سے چھ خطوط مشہور ہیں جو خسرو پرویز کسرا ایران کے بادشاہ، ہرکیولس روم شرقی کے قیصر، نجاشی حبشہ کے بادشاہ، مقوقس اسکندریہ کے بادشاہ، حارث بن ابی شمرغسانی شام کے بادشاہ اور ہوذہ بن علی حنفی یمامہ کے بادشاہ کو بھیجے گئے۔

ایک اور خط پیغمبر اسلام ﷺ کی جانب سے 9 ہجری کو حجۃ الوداع سے پہلے نجران کے مسیحیوں کے لئے بھیجا گیا۔ نجران کے بشپ ابوحارثہ آپ ﷺ کے خط کو غور سے پڑھنے کے بعد مختلف علمی و مذہبی شخصیات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیتا ہے۔ کمیٹی غوروخوض کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ نجران سے ایک وفد مدینہ بھیجا جائے گا جو محمد کے نبوت کے دلائل کی قریب سے جانچ پڑتال کرے گا۔1

نجران کا وفد پیغمبر اسلام سے گفتگو و مذاکرہ کیلئے مدینہ آتا ہے۔ جب پیغمبر اکرمﷺ سے حضرت عیسی کے بارے میں سوال کرتے ہوئے نجران کا وفد کہتا ہے کہ حضرت عیسی کی ماں حضرت مریم نے کسی کے ساتھ شادی کئے بغیر اسے پیدا کیا۔ پس یا وہ خود خدا ہے یا پھر خدا کا بیٹا ہے اور ہم سب تثلیث کے قائل ہیں۔ یعنی تین خداوں کے قائل ہیں: باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

إِنَّ مَثَلَ عِيسى‏ عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ قالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ عیسی کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے کہ خدا نے اسے مٹی سے پیدا کیا، خدا نے کہا " کن "ہوجا تو وہ فورا وجود میں آیا۔2

پیغمبر اکرم ﷺنے یہ آیت ان کو سنائی اور فرمایا: اگر باپ نہ ہونا اس بات کی دلیل ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے تو حضرت آدم اس منصب کے زیادہ لائق ہیں کیونکہ ان کا نہ باپ ہے اور نہ ہی ماں۔

نجران کا وفد حق کے واضح ہونے کے باوجود جب ہٹ دھرمی پر اتر آئے تواسی وقت آیہ مباہلہ نازل ہوتی ہے:

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آچکا ہو، تو کہہ دے آؤ! ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمہیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔3

جس کے بعد پیغمبر اسلام ﷺمباہلے کے لئے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ۲۴ ذی الحجہ ۱۰ ہجری میں پیش آیا۔4

اگلے دن صبح پیغمبر اسلام ﷺصرف چار افراد کے ساتھ مدینہ کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں، پیغمبر اسلام ﷺنے خدا کے حکم کی بعینہ تعمیل کرتے ہوئے جہاں اپنے بیٹوں کو لانے کا حکم ہوا وہاں امام حسن و حسین علیہم السلام کو لائے، جہاں اپنی عورتوں کو لانے کا حکم ہوا وہاں حضرت فاطمہ علیہا السلام کو لائے اور جہاں اپنی جان کو لانے کا حکم ہوا وہاں حضرت علی علیہ السلام کو لائے ہیں۔ پیغمبر ﷺمباہلے کی جگہ پہنچنے کے بعد اپنی عبا کو کھولتے ہیں اور پانچوں افراد عبا کے نیچے جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ابوحارثہ جو عیسائی وفد کا سربراہ تھا کہتا ہے کہ میں پانچ ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں جو دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو پہاڑ زمین سے اکھڑ جائیں۔ مباہلہ کرنے کی صورت میں ہماری نابودی یقینی ہے، مباہلہ نہ کریں ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اس کے بعد وہ لرزتے ہاتھوں اور کانپتے پاؤں کے ساتھ پیغمبر اکرم ﷺکے قریب آیا اور کہتا ہے کہ: اے اباالقاسم ہمیں مباہلے سے معاف کریں، ہم اپنی شکست کو قبول کرتے ہیں اور جزیہ دیں گے۔5

واقعہ مباہلہ کے نکات:

آپ نے اوپر واقعہ مباہلہ ملاحظہ فرمایا جس میں درج ذیل نکات موجود ہیں:

  1. قرآن کریم میں فضیلت مولاعلی علیہ السلام پر اس آیت سے بڑھ کر کوئی آیت نہیں ہوسکتی جس میں آپ "نفس رسول" قرار پاتے ہیں، اسی بنا پر بعض علماء نےاس سے مولا علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کو ثابت کیا ہے۔
  2. اہل بیت رسول ﷺ کون ہیں؟ اس کا بہترین جواب آیہ مباہلہ ہے۔ جہاں پیغمبر ﷺ نے بیٹوں کی جگہ حسنین علیہ السلام عورتوں کی جگہ فاطمہ اور نفس پیغمبرﷺ کے طور پر حضرت علی علیہ السلام کو لے گئے، اگرازواج اہل بیت رسولﷺ میں ہوتی تو "نساءنا" عورتوں کے عنوان میں گنجائش تھی اور پیغمبرﷺ کو لے کر جانا چاہیے تھا، پیغمبر ﷺ کا نہ لے جانا بتاتا ہے کہ ازواج فقط ازواج تھیں لیکن اہل بیت پیغمبرﷺ پنجتن پاک تھے۔
  3. اسلام دین علم، صلح و آشتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل مباہلہ ہے جہاں چند عیسائی علماء مسلمانوں کے مرکز میں آئے ہیں اور اتنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہیں ہیں اگر اسلام جنگ پسند ہوتا تو ان لوگوں کی گردنیں کب کی کٹ چکی ہوتیں مگر ان کا برداشت کرنا اسلام کے پر امن ہونے کی دلیل ہے۔
  4. اللہ تعالی فتح مکہ کو "فتح مبين" واضح کامیابی کا عنوان دیا کیونکہ اس میں بغیر کسی خون خرابے کے ایک مذہب پر فتح ملی تھی بلکل اسی طرح مباہلہ بھی فتح مبین ہے جہاں بغیر کسی لاؤ و لشکر کے دنیا کے ایک بہت بڑےمذہب کے اوپر پنجتن پاک ﷩ کے صدقے دین اسلام کی برتری ثابت ہوئی تھی۔
  5. اسلام ادب اور احترام کا دین ہے، وہ دوسرے مذاہب کے مقدسات کی تحقیر نہیں کرتا اگرچہ وہ باطل پر ہی کیوں نہ ہو یہی بات لوگوں کا اسلام کی طرف جذب ہونے کا باعث بنتی تھی پس ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔
  6. مسلمانوں اور خصوصا شیعوں کی ذمہ داری ہےکہ عید مباہلے کی اس فتح مبین پر جشن منائیں اور باقی بے خبر مسلمانوں کو آگاہی بخشیں کہ کتنی بڑی کامیابی اہل بیت علیہما السلام کے طفیل اسلام کے دامن میں آئی ہے۔

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بحق پنجتن پاک علیہم السلام ہم سب کی عاقبت بخیر ہو اور امام زمان کے ظہور میں تعجیل ہو ان شاء اللہ۔


حوالہ

1البدایة و النهایة، ابن کثیر، ج۵، ص۶۴
2ال عمران۵۹
3ال عمران۶۱
4طوسی، محمدحسن، مصباح المجتهد، ص۷۶۴
5مجمع البیان فی تفسیر القرآن طبرسی،ج۲، ص۳۱۰

Gides © 2025 web developtment by GIYF Team | Rights Reserved