سب سے پہلے تمام مومنین و مومنات کو عید سعید مباہلہ کی مناسبت سے تبریک عرض کرتا ہوں آج کا مقالہ مباہلے کے عنوان سے لکھنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے جس میں واقعہ مباہلہ کی نوعیت اور آخر میں اس پر کچھ تبصرہ ہو گا ۔ ان شاء اللہ
پیغمبر اکرم ﷺ نے مدینہ میں اسلامی حکومت قائم کرنے کے چند سال بعد دیگر ممالک و مذاہب کے سربراہان کے نام خطوط لکھے۔ جن میں سے چھ خطوط مشہور ہیں جو خسرو پرویز کسرا ایران کے بادشاہ، ہرکیولس روم شرقی کے قیصر، نجاشی حبشہ کے بادشاہ، مقوقس اسکندریہ کے بادشاہ، حارث بن ابی شمرغسانی شام کے بادشاہ اور ہوذہ بن علی حنفی یمامہ کے بادشاہ کو بھیجے گئے۔
ایک اور خط پیغمبر اسلام ﷺ کی جانب سے 9 ہجری کو حجۃ الوداع سے پہلے نجران کے مسیحیوں کے لئے بھیجا گیا۔ نجران کے بشپ ابوحارثہ آپ ﷺ کے خط کو غور سے پڑھنے کے بعد مختلف علمی و مذہبی شخصیات پر مشتمل کمیٹی تشکیل دیتا ہے۔ کمیٹی غوروخوض کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ نجران سے ایک وفد مدینہ بھیجا جائے گا جو محمد کے نبوت کے دلائل کی قریب سے جانچ پڑتال کرے گا۔1
نجران کا وفد پیغمبر اسلام سے گفتگو و مذاکرہ کیلئے مدینہ آتا ہے۔ جب پیغمبر اکرمﷺ سے حضرت عیسی کے بارے میں سوال کرتے ہوئے نجران کا وفد کہتا ہے کہ حضرت عیسی کی ماں حضرت مریم نے کسی کے ساتھ شادی کئے بغیر اسے پیدا کیا۔ پس یا وہ خود خدا ہے یا پھر خدا کا بیٹا ہے اور ہم سب تثلیث کے قائل ہیں۔ یعنی تین خداوں کے قائل ہیں: باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:
إِنَّ مَثَلَ عِيسى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرابٍ ثُمَّ قالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ
عیسی کی مثال آدم علیہ السلام کی طرح ہے کہ خدا نے اسے مٹی سے پیدا کیا، خدا نے کہا " کن "ہوجا تو وہ فورا وجود میں آیا۔2
پیغمبر اکرم ﷺنے یہ آیت ان کو سنائی اور فرمایا: اگر باپ نہ ہونا اس بات کی دلیل ہو کہ وہ خدا کا بیٹا ہے تو حضرت آدم اس منصب کے زیادہ لائق ہیں کیونکہ ان کا نہ باپ ہے اور نہ ہی ماں۔
نجران کا وفد حق کے واضح ہونے کے باوجود جب ہٹ دھرمی پر اتر آئے تواسی وقت آیہ مباہلہ نازل ہوتی ہے:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ
پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آچکا ہو، تو کہہ دے آؤ! ہم اپنے بیٹوں اور تمہارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمہاری عورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمہیں بھی، پھر گڑ گڑا کر دعا کریں، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔3
جس کے بعد پیغمبر اسلام ﷺمباہلے کے لئے آمادگی کا اظہار کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ۲۴ ذی الحجہ ۱۰ ہجری میں پیش آیا۔4
اگلے دن صبح پیغمبر اسلام ﷺصرف چار افراد کے ساتھ مدینہ کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں، پیغمبر اسلام ﷺنے خدا کے حکم کی بعینہ تعمیل کرتے ہوئے جہاں اپنے بیٹوں کو لانے کا حکم ہوا وہاں امام حسن و حسین علیہم السلام کو لائے، جہاں اپنی عورتوں کو لانے کا حکم ہوا وہاں حضرت فاطمہ علیہا السلام کو لائے اور جہاں اپنی جان کو لانے کا حکم ہوا وہاں حضرت علی علیہ السلام کو لائے ہیں۔ پیغمبر ﷺمباہلے کی جگہ پہنچنے کے بعد اپنی عبا کو کھولتے ہیں اور پانچوں افراد عبا کے نیچے جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ابوحارثہ جو عیسائی وفد کا سربراہ تھا کہتا ہے کہ میں پانچ ایسے نورانی چہرے دیکھ رہا ہوں جو دعا کے لئے ہاتھ اٹھائیں تو پہاڑ زمین سے اکھڑ جائیں۔ مباہلہ کرنے کی صورت میں ہماری نابودی یقینی ہے، مباہلہ نہ کریں ورنہ ہلاک ہوجاؤگے۔ اس کے بعد وہ لرزتے ہاتھوں اور کانپتے پاؤں کے ساتھ پیغمبر اکرم ﷺکے قریب آیا اور کہتا ہے کہ: اے اباالقاسم ہمیں مباہلے سے معاف کریں، ہم اپنی شکست کو قبول کرتے ہیں اور جزیہ دیں گے۔5
آپ نے اوپر واقعہ مباہلہ ملاحظہ فرمایا جس میں درج ذیل نکات موجود ہیں:
آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بحق پنجتن پاک علیہم السلام ہم سب کی عاقبت بخیر ہو اور امام زمان کے ظہور میں تعجیل ہو ان شاء اللہ۔
1البدایة و النهایة، ابن کثیر، ج۵، ص۶۴
2ال عمران۵۹
3ال عمران۶۱
4طوسی، محمدحسن، مصباح المجتهد، ص۷۶۴
5مجمع البیان فی تفسیر القرآن طبرسی،ج۲، ص۳۱۰