Articles

Biography of Hazrat Fatima Masooma (sa)


By Sheikh Ghulam Mehdi Hakimi | Date : Tuesday 11 Jun 2024 PDF | English | Urdu

Martyrdom of Fatima Zehra (sa)
روضہِ مقدس قم، ایران
لقب
المعصومہ
والد
امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
والدہ
نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا
تاریحِ پیدائش
یکم ذی القعدہ
جائے پیدائش
مدینہ
وفات
۱۰ ربیع الثانی
عمر
۲۸ سال
مدفن
قم

ولاتِ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا:

تحریر حاضر حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا  کی ولادت با سعادت کی مناسبت سے لکھی جاری ہے اور ہمارے پڑوسی ملک ایران میں جہاں حضرت معصومہ قم سلام اللہ علیہا کا مزار مقدس بھی ہے، اس دن کو ’’روز دختر‘‘ یعنی بیٹی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے اور والدین اپنی بیٹیوں کو اس دن مختلف تحفے تحائف خرید کر دیتے ہیں ،اسکولوں میں جشن رکھا جاتا ہے اور ایک خوشی اور عید کا سماں ہر جگہ نمایاں ہوتا ہے اس روایت کو اگر ہمارے بھی گھروں اور خاندانوں میں رائج کیا جائے تو ایک رشتہ کے احترام اور اس سے منسلک ہماری اسلامی اقدار کا بہترین اظہار ہو، اسی بنا پر آج ہم اپنے مقالے میں پہلے حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  کا مختصر تعارف پیش کرنے کے بعد انہی کی شخصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے قبل اسلام اور اسلام میں بیٹی کی اہمیت پر روشنی ڈالیں گے۔ ان شاءاللہ

ابتدائی معلومات:

حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا اسم گرامی، فاطمہ جبکہ القاب میں معصومہ اور کریمہ اہلبیت معروف ہیں ۔ ان کے والد گرامی، امام موسی کاظم علیہ السلام جبکہ والدہ نجمہ خاتون سلام اللہ علیہا تھیں، ان کی ولادت تقریبا، اول ذیقعده ۱۷۳ہجری میں مدینہ منوره میں ہوئی نیز ۲۳ ربیع الاول ۲۰۱ شہر مقدس قم میں تشریف لائیں اور ۱۷ دن بعد ، ۲۸ سال کی عمر میں رحلت فرما گئیں۔

اسلام نے کس طرح بیٹی کو کیا احترام وعظمت دی؟

اسلام سے پہلے عصر جاہلیت میں نہ فقط بیٹی کی کوئی اہمیت ہی نہیں تھی بلکہ بیٹی کی ولادت کو معاشرے میں ننگ و عار سمجھا جاتا تھا، جس کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے:

وَ إِذا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَ هُوَ كَظِيمٌ يَتَوارى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ ما بُشِّرَ بِهِ أَ يُمْسِكُهُ عَلى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرابِ أَلا ساءَ ما يَحْكُمُونَ

اور جب ان میں سے کسی کو خبر دی جاتی کہ تمھارے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا اور وہ غصے میں لال پیلاہو جاتا اور اس بری خبر کی بنا پر قوم سے منہ چھپاتا ہوا گھومتا کہ اس بچی کو حقارت کے ساتھ پالے یا اس کو مٹی تلے دفن کر دے۔

پھر عرب تعصب، جاہلیت اور معاشرے کے طعنوں اور کنایوں کے خوف سے اپنی لخت جگر کو منوں مٹی تلے دفنا دیتے تھے، جس کا حساب ان کو قیامت میں چکانا ہو گا:

وَ إِذَا الْمَوْؤُدَةُ سُئِلَتْ بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ

جب ان بے گناہ بچیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم کس گناہ میں قتل کی گئیں؟!

ایسے میں اسلام پھیلا جس نے بیٹی کو رحمت قرار دیا اس کو باعث شرمندگی نہیں بلکہ باعث مسرت و خوشی قرار دیا جس کے لیے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہم حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ذات کو دیکھیں کہ ابھی آپ دنیا میں آئی نہیں تھیں لیکن ان کے آنے کی خوشخبری آئمہ معصومین علیہم السلام دے رہے ہیں جو اس بیٹی کے جلیل القدر ہونے کی دلیل ہے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام  نے فرمایا:

إِنَّ لِلَّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَکةُ وَ لِرَسُولِهِ حَرَماً وَ هوَ الْمدِینَةُ وَ لِأَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ حَرَماً وَ هُوَ الْکوفَةُ وَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ قُمُّ وَ سَتُدْفَنُ فِیهِ امْرَأَةٌ منْ وُلْدِی تسَمَّی فاطِمَةَ مَنْ زَارَهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ. قَالَ الرَّاوِی وَ کانَ هَذَا الْکلَامُ مِنْهُ قَبْلَ أَنْ یولَدَ الْکاظِمُ(ع)

اللہ کا ایک حرم ہے جو کہ مکہ مکرمہ ہے، رسول اللہ ﷺکا حرم مدینہ ہے، امیرالمومنین علیہ السلام کا حرم نجف اشرف ہے اور ہمارا حرم قم ہو گا، جہاں میری اولادوں میں سے ایک خاتون دفن ہوں گی جس کا نام فاطمہ ہو گا جو اس کی زیارت کرے اس پر جنت واجب ہو گی۔ راوی کہتا ہے کہ امام علیہ السلام  نے یہ کلام تب ارشاد فرمایا جب امام کاظم علیہ السلام جو کہ بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کے والد گرامی ہیں وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔

اس حدیث پر ذرا غور کریں تو ایک طرف تو امام جعفر صادق علیہ السلام کے علم غیب پر دلیل ہے کہ ابھی امام کاظم علیہ السلام دنیا میں آئے نہیں لیکن ان کی بیٹی کی شخصیت اور عظمت بتانے کے ساتھ ساتھ ان کا محل دفن اور ان کی زیارت کا ثواب بھی پہلے ہی معین کر دیا۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ پہلے اس خاتون کو دنیا میں تو آنے دو ممکن ہے وہ ایسی ذات اور کردار کی مالک نہ ہوں جن کے بارے میں امام صادق علیہ السلام کہہ رہے ہیں لیکن زمانے  نے ثابت کر دیا کہ یہ صادق آل محمدﷺ کی زبان ہے جس سے صداقت کے سوا کچھ نہیں ادا ہوتا جس کا ہر ہر لفظ بلکل صحیح ثابت ہوا کیونکہ جب حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا دنیا میں آئی تو بچپنے میں ہی اتنا مقام پیدا کیا کہ ان کے والد امام کاظم علیہ السلام ان کی عظمت اور مقام علمی پر وارے جا رہے ہیں اور تاریخ شاہد ہے کہ:

علمِ حضرت معصومہ قم  سلام اللہ علیہا:

نویں صدی کے شیعہ عالم دین صالح بن عرندس حلی، روایت کرتے ہیں کہ ایک دن شیعوں کا ایک گروہ، امام  حضرت موسی بن جعفر علیہ السلام کے دیدار کے قصد سے مدینہ منوره میں مشرف ہوئے، وہ اپنے ساتھ مومنین کے پوچھے گئے شرعی سوالات بھی ساتھ لائے تھے مگر مدینہ پہنچنے پر پتہ چلا کہ امام کاظم علیہ السلام مسافرت میں ہیں، اس وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا  نے ان کے تمام شرعی سوالات کے جوابات دیے، جب قافلہ مدینے سے نکلا تو راستے میں امام علیہ السلام سے ان کی ملاقات ہوئی۔ لوگوں نے سوالات کا ماجرا بیان کیا تو امام علیہ السلام نے نظر ثانی فرمائی اور پھر بہت خوشحالی کا اظہار کرتے ہوئے تین دفعہ یہ جملہ فرمایا:فداها ابوها، ترجمہ: ان کا بابا ان پر قربان ہو جائے۔

ذرا اس بات پر غور کریں کہ امام کاظم علیہ السلام کی شہادت ۲۵ رجب سن ۱۸۳ ہجری میں زندانِِ ہارون میں ہوئی جبکہ حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی ولادت ۱۷۳ ہجری میں ہوئی اور اب اس میں سے حضرت امام کاظم علیہ السلام کے زندان کےکم از کم چار سال نکال دیے جائے تو حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا نے فقط چھ سال اپنے والد بزرگوار کے ساتھ زندگی کی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ کے وقت حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کی عمر مبارک فقط چھ سال تھی اورآپ علم کے اس مقام پر پہنچی ہوئی تھی کہ امام معصوم علیہ السلام خود کو ان پر قربان کر رہا ہے جس کو دیکھ کر زبان سے بے اختیارسبحان اللہ نکل آتا ہے!

جی ہاں! اسلام نے اس بیٹی کو جسے ننگ و عار سمجھا جاتا تھا اسے باعث افتخار قرار دیا اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا جیسی بیٹیوں نے اپنی شخصیت و عظمت کا کومنوا کر عصر جاہلیت کے اس نظریے پر خط بطلان کھینچ دیا ہے اور خود کو میدان علم و عمل میں تمام عالم اسلام کے مردوں کے لیے قابل رشک بنا دیا یہی اسلام کے حقوق نسواں کا علمبردار ہونے کی دلیل ہے آج کے حقوق نسواں کے کھوکھلے نعرے لگانے والے مرد و عورت کو تخلیقی اور تکوینی طور پر برابر قرار دے کر اپنے مذموم عزائم کو پورا کرنا چاہتے ہیں، جو فطری تقاضوں اور حقائق کا انکار کرنے کے مترادف ہے اس طرح عورت کو گھر کی چار دیواری سے نکال کر اس کا تقدس مردوں کے ہاتھوں پائمال کرنا چاہتے ہیں

جبکہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے، عورت اور مرد کی تکوینی اور تخلیقی اختلاف کو مد نظر رکھتے ہوئے اس مقام میں مساوات کا نعرہ نہیں لگایا کیونکہ یہ حقیقت اور فطرت کے خلاف تھا اس کے بدلے عورت کو معنوی مقام و منزلت میں مردوں کے مساوی قرار دیا:

من عمل صالحا من ذکر او انثی فھو مومن

جس نے بھی عمل صالح اانجام دیا خواہ وہ مرد ہو یا عورت، وہ مومن ہے

جو کہ فطرت کے عین مطابق بھی ہے اور عورت کو عروج تک پہنچانے کا ذریعہ بھی ہے امید ہے کہ ہماری خواتین اسلام کا مطالعہ کرنے کے ساتھ اس کے ان خوبصورت اور فطری کارناموں کو مد نظر رکھیں گی تا کہ مغربی مذموم نعروں کے دام میں پھنسنے کے بجائے اسلام کے اعتدال پر یقین اور اعتقاد پیدا ہو جائے اس طرح اس کے احکام کو دل و جان سے قبول کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ ان شاء اللہ

آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماری خواتین اور بیٹیوں کو بھی حیا و عفت کا پیکر بنا کر ہمارے لیے باعث افتخار بنا دے۔

Gides © 2024 web developtment by GIYF Team | Rights Reserved