[fusion_builder_container type="flex" hundred_percent="no" equal_height_columns="no" menu_anchor="" hide_on_mobile="small-visibility,medium-visibility,large-visibility" class="" id="" background_color="" background_image="" background_position="center center" background_repeat="no-repeat" fade="no" background_parallax="none" parallax_speed="0.3" video_mp4="" video_webm="" video_ogv="" video_url="" video_aspect_ratio="16:9" video_loop="yes" video_mute="yes" overlay_color="" video_preview_image="" border_color="" border_style="solid" padding_top="" padding_bottom="" padding_left="" padding_right=""][fusion_builder_row][fusion_builder_column type="1_1" layout="1_1" background_position="left top" background_color="" border_color="" border_style="solid" border_position="all" spacing="yes" background_image="" background_repeat="no-repeat" padding_top="" padding_right="" padding_bottom="" padding_left="" margin_top="0px" margin_bottom="0px" class="" id="" animation_type="" animation_speed="0.3" animation_direction="left" hide_on_mobile="small-visibility,medium-visibility,large-visibility" center_content="no" last="true" min_height="" hover_type="none" link="" border_sizes_top="" border_sizes_bottom="" border_sizes_left="" border_sizes_right="" first="true"][fusion_text]
جناب سکینہ بنت الحسین علیہا السلام کی شہادت کے ایام چل رہے ہیں ہم سب مل کر امام زمانہ عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے حضور تعزیت وتسلیت کو پیش کرتے ہیں۔
برصغیر پاک وہند میں جناب سکینہ علیہا السلام کے نام سے جو بی بی مشہور ہیں ایران وعراق میں وہ جناب رقیہ علیہا السلام کے نام سے مشہورہے اور یہی نام مقتل کی کتابوں میں بھی درج ہے۔ مورخین نے امام حسین علیہ السلام کی بیٹیوں کی تعداد کے بارے میں مختلف اقوال لکھے ہیں لیکن جو مشہور قول ہے وہ یہ ہے کہ آپؑ کی چار بیٹیاں تھی۔ ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں کہ شیخ کمال الدین بن طلحة کہتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام کی کل دس اولادیں تھی جن میں چھ فرزند اور چار بیٹیاں تھیں۔ بیٹیوں کے نام زینب، سکینہ، فاطمہ لیکن چوتھی بیٹی کا نام ذکر نہیں کیا لیکن کتاب ملہوف میں یہ نقل ہے کہ "امام حسین علیہ السلام نے آخرى رخصت کے موقع پر جن بیبیوں کو پکارا ان میں جناب ام کلثوم،
جناب زينب، جناب رقیہ، جناب فاطمہ کبری اور جناب رباب شامل تھی"۔ (مقتل ملھوف ص 141)۔ اسی طرح کتاب ینابیع المودة میں ذکر ہے کہ امام حسین علیہ السلام نے آخر وقت میں ندا دی کہ " اے ام کلثوم، اے سکینہ، اے رقیہ، اے عاتکہ، اے زینب، اے میرے اھلیبت علیہم السلام تم میرا سلام ہو۔"
اس کے علاوہ ایک بڑے فقیہ عماد الدین طبری، یہ عالم ساتویں صدی ہجری کے علماء میں سے تھے جو ظاہراً 675 ہجری میں وفات پاگئے تھے، یہ ایک قابل قدر فقیہ اور عالم تھے، مرحوم شہید اول نے نماز جمعہ کی بحث میں ان کے نظریہ کو بیان کیا ہے، ان کی کتاب ''کامل'' جو کہ ''کامل بہائی''کے نام سے مشہور ہے، ا س کتاب کی جلد 2 صفحہ 179 میں صریحاً لکھا ہے کہ حضرت رقیہ علیہا السلام امام حسین علیہ السلام کی بیٹی ہے ، انہوں نے لکھا ہے : یہ بچی نیند سے اٹھی اور بولی : این ابی ؟ میرے بابا کہاں ہیں، جب یزید نے بچی کی رونے کی آواز کو سنا تو حکم دیا کہ امام حسین علیہ السلام کے سر مقدس کو اس بچی کے سامنے بھیجا جائے ، جب بچی نے اپنے باپ کے سر مقدس کو دیکھا تو دردناک بین کئے اور خوب گریان ونالہ ہوا اور اسی دوران بچی کی وفات ہوگئی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اس بچی کی عمر چار سال تھی ۔ اس کے علاوہ سید محمد علی شاہ عبد العظیمی نے کتاب الایقاد میں لکھا ہے : امام حسین علیہ السلام کی ایک چھوٹی بیٹی تھی جس سے آپ علیہ السلام بہت محبت کرتے تھے اور وہ بچی بھی آپ سے بہت مانوس تھی۔ کہا گیا ہے اس کا نام رقیہ تھا اوروہ تین سال کی تھی۔ یہ بچی بھی اسیروں کے ساتھ شام میں آئی تھی اور دن رات باپ کی جدائی پر روتی رہتی تھی اوراس سے یہ کہا گیا تھا کہ آپ کے والد گرامی سفر میں ہے اور ایک رات انہوں نے اپنے باپ کو خواب میں دیکھا تو بیدار ہوئی اور بہت زیادہ روئی اور کہنے لگی : میرے باپ اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک کو مجھے لا کر دو ! اہل بیت علیہم السلام نے جتنی کوشش کی وہ چپ نہیں ہوئی بلکہ مسلسل روتی رہی اور اس رونے کی وجہ سے اہلبیت علیھم السلام کے غم و اندوہ تازہ ہوگئے اور وہ سب بھی رونے لگےاور جب ہر طرف سے گریہ و نالہ اور آہ وفغان کی آوازیں بلند ہوئی تویزید نے ان کے رونے کا سبب پوچھا تو اسے کہا گیا کہ امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بچی نے اپنے باپ کو خواب میں دیکھا ہے اور اب نیند سے اٹھ کر ان کو یاد کرکے گریہ و زاری کررہی ہے تو یزید نے کہا :اس کے باپ کے سر کو اس کے لئے لے جاؤ اور اس کے پاس رکھ دو تا کہ اسے آرام ملے! جب سر مقدس کو ایک طبق میں ڈھانپ کے زندان کے پاس لایا گیا تو اس بچی نے طبق کو دیکھ کر سوچا کہ شاید وہ لوگ ان کے لئے کھانا لائے ہیں تو وہ بولی: مجھے میرے باپ کو لا کر دو، مجھے کھانا نہیں چاہئے! وہ بولے تمہارا باپ اس میں ہے اور ڈھانپے ہوئے کپڑے کو اٹھایا تو ایک سر نظر آیا جسے دیکھ کر بچی بولی: یہ کس کا سر ہے؟ وہ بولے یہ تمہارے باپ کا سر ہے، اس وقت بچی نے سر کو اٹھایا اور اپنے سینے سے لگا کر بولنےلگی :میرا بابا ! کس نے تمہیں سر کو خون سے خضاب کیا ہے ؟ بابا! کس نے آپ کی رگوں کو کاٹا ہے ؟ میرے بابا! کس نے مجھے اس چھوٹی عمر میں یتیم کیا ہے؟! اس کے بعد اپنے لبوں کو باپ کے لبوں پر رکھ کر رونے لگی کہ اسی حالت میں بیہوش ہو گئی،جب ساتھ موجود بی بچوں نے ہلایا گیا تو معلوم ہوا کہ تسلیم خالق کائنات ہوگئی، اس وقت ہر طرف سے اہلبیت علیہم السلام کے رونے کی آوازیں بلند ہوئی۔
اس کے علاوہ جناب ابو الحسن علی بن ابی القاسم بن زید بیہقی ،جو کہ ابن فندق سے مشہور ہے، سنہ 493 ہجری قمری میں متولد ہوئے اور سنہ 655 ہجری قمری میں وفات پائے۔ ان کی علم انساب کے بارے میں ایک قیمتی کتاب ہے جس کا نام ہے ''لباب الانساب و الالقاب و الاعقاب" ہے اس کتاب میں جلد 1 ص 355 پر لکھتے ہیں کہ:أما الحسینیه فهم من أولاد الحسین بن علی علیهما السلام، ولم یبق من آولاده الا زین العابدین علیه السلام، وفاطمه، وسکینه، ورقیه۔ فأولاد الحسین علیه السلام من قبل الأب هم من صلب زین العابدین علیه السلام۔ ترجمہ: سادات حسینی ، حسین بن علی علیہ السلام کے فرزندوں میں سے ہے ان کی اولادوں میں سے زین العابدین علیہ السلام فاطمہ ، سکینہ اور رقیہ کے علاوہ کوئی اور باقی نہیں رہ گئے تھے۔ اس لحاظ سے حسین علیہ السلام کے فرزندان زین العابدین علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔
ان تمام دلائل کے علاوہ بھی بہت سارے دلائل اور واقعات جو جناب رقیہ علیہا السلام سے منسوب ہے وہ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ علیہا السلام امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بیٹی تھی اور کربلا کے مصائب کو آپ سلام اللہ علیہا نے برداشت کیا اور اس راہ میں شہید ہوگئی۔ آخری میں ہم جناب مرحوم آیت اللہ العظمی حاج میرزا جواد تبیریزی (اعلی اللہ مقامہ الشریف) جن کا دل خاندان عصمت و طہارت کے عشق اورمحبت سے پر تھا کی مناسبت سے ذکر کرتے ہیں کہ جب آپ بیمار ہوئے تو شام میں حضرت رقیہ علیہا السلام کی قبر مطہر کی زیارت کے لئے گئے، اس وقت وہاں پر ایک تقریر کی جس میں آپ نے کہا: احکام شرعی اور فقہی مسائل کو سیکھنا سب سے افضل ترین کاموں میں سے ہے، آپ کو معلوم ہے کہ خارجی موضوعات کے ثابت ہونے کی کچھ حدود ہیں اور ان سب یا اکثر میں گواہ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ، لیکن بعض مسائل ایسے ہیں جن میں مشہور ہونا کافی ہے ، ان کے ثابت ہونے کے لئے شہرت کافی ہے اور وہاں کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہوتی ،صرف شہر ت کا ہونا کافی ہے ۔
اس کی مثال یوں ہے کہ کسی نے کوئی زمین خریدی ہے ،اس کے بعد اسے کہا جاتا ہے کہ یہ زمین تو وقف کی ہے ، امام علیہ السلام سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے ، حضرت فرماتےہیں: اگر لوگوں کے درمیان یہ مشہور ہو کہ یہ زمین وقف ہے تو اس کا خریدنا جائز نہیں ہے ، اسے واپس کرنا چاہئے ، منی اور مشعر کی حدود بھی اسی طرح ہے (کہ شہرت سے ثابت ہوتا ہے) اسی طرح قبور کا معاملہ ہے ، ممکن ہے کوئی دوسو سال پہلے کسی جگہ دفن ہوا ہو اور کوئی ایسا شخص نہ ہو جس نے اس کی قبر کو اس جگہ پر دیکھا ہوا ہو ، لیکن لوگوں کے درمیان میں مشہور ہو کہ وہ فلان جگہ پر دفن ہے، تو اس کے لئے یہی شہرت کافی ہے ۔
حضرت رقیہ بنت الحسین علیہا السلام کی قبر بھی اسی طرح ہے کہ یہ پہلے سے مشہور ہے ،گویا حضرت امام حسین علیہا السلام نے اسے شام میں یادگاری کے طور پر رکھا ہے تا کہ آئندہ زمانے میں ایسا نہ ہو کہ لوگ خاندان عصمت و طہارت کے اسیرہونے اور دوسرے واقعات کا انکار کرے ، یہ چھوٹی سی بچی ایک بڑی گواہی ہے کہ اسیروں کے درمیان حتی کہ چھوٹی چھوٹی بچیاں بھی تھیں ، حضرت رقیہ بنت الحسین علیہا السلام کے اس جگہ پر دفن ہونا مشہور ہے اوراسی جگہ پر اپنی خالق خقیقی سے جا ملنا بھی مشہور ہے۔
ہم اسی لئے ان کی زیارت کے لئے آئے ہیں ، ان کا احترام ضروری ہے(یہ نہ بولیں کہ آپ (س) چھوٹی تھیں ) علی اصغر کہ ایک دودھ پینے والا بچہ ہے لیکن ان کا مقام و منزلت کو دیکھیں کہ حضرت سید الشہداء علیہا السلام کے سامنے کربلا میں دفن ہے۔ بتاتے ہیں کہ ان کا اس جگہ پر دفن ہونا یہ بتاتا ہے کہ روز محشر حضرت امام حسین علیہالسلام ان کو ہاتھ میں اٹھائیں گے اور سب کو دیکھائیں گے اوراس چھوٹی بچی کا شام میں د فن ہونا خاندان عصمت و طہارت کے اسیری اور ان پر ظلم ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ وہ ظلم و ستم جس پرآدمؑ سے خاتم تک سب ان پر روئےہیں، یہاں تک کہ خدا نے امام حسین علیہا السلام کے مصائب کو جناب آدم سے بیان کیا ۔
اس لحاظ سے اس جگہ کا احترام فرض ہے، غلط باتوں کی طرف توجہ نہ دیں ، جو یہ کہتے ہیں وہ ایک چھوٹی بچی تھی ، ایسی باتوں پر توجہ نہ دیں، تو کیا جناب علی اصغر علیہ السلام چھوٹے نہیں تھے کہ قیامت کے دن ایک گواہ ہوگے اور شیعوں کے گناہوں کو معاف کرانے کا سبب بنیں گے انشاء اللہ ۔
لہذا اس جگہ کا احترام سب پر واجب ہے، غلط اور بیہودہ باتوں پر توجہ نہ دیں یہ شیاطین گمراہ کرنے کے لئے کرتے ہیں ، ہم امام حسین علیہ السلام کی بیٹی کی زیارت کر کے خدا کے تقرب کے طالب ہوتے ہیں ، وہ بچی جو خود مظلومہ تھی اور ان کا تمام خاندان بھی مظلوم تھا۔
تحقيق و تالیف: مولانا علی رضا لیلانی
[/fusion_text][/fusion_builder_column][/fusion_builder_row][/fusion_builder_container]